پاکستان کے دس پندرہ بڑے شہروں سے نکل جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگ تیسری دنیا میں نہیں دسویں بارھویں دنیا میں رہتے ہیں۔وہاں تو لوگوں کے پاس نہ روزگار ہے، نہ سہولتیں۔ وہ اپنی آدھی زندگی خواہش میں گزارتے ہیں اور آدھی حسرت میں مبتلا ہو کر۔ کون سی اخلاقیات سکھا سکتے ہیں آپ اُس شخص کو جس کا دن سوکھی روٹی سے شروع ہوتا ہے اور فاقے پر ختم ہو جاتا ہے اور ہم۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کی بھوک مٹانے کے بجائے مسجدوں پر مسجدیں تعمیر کرتے ہیں۔عالی شان مسجدیں، پرشکوہ مسجدیں، ماربل سے آرستہ مسجدیں۔ بعض دفعہ تو ایک ہی سڑک پہ دس دس مسجدیں کھڑی ہوتی ہیں۔ نمازیوں سے خالی مسجدیں۔ اس ملک میں اِتنی مسجدیں ہوچکی ہیں کہ اگر پورا پاکستان ایک وقت کی نماز کے کے لئے مسجدوں میں اکھٹا ہوجاۓ تو بھی بہت سی مسجدیں خالی رہ جائیں گی۔ میں مسجدیں بنانے پر یقین نہیں رکھتا جہاں لوگ بھوک سے خودکشیاں کرتے پھر رہے ہوں جہاں کچھ خاص طبقوں کی پوری پوری نسل جہالت کی اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہو وہاں مسجد کے بجائے مدرسے کی ضرورت ہے۔اسکول کی ضرورت ہے،تعلیم اور شعور ہوگا اور رزق کمانے کے مواقع تو اللہ سے محبت ہوگی ورنہ صرف شکوہ ہی ہوگا۔